Information and theories about Islam

Sunday, August 9, 2015

Research and Inventions غار حرا میں



سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نبوت سے پہلے غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم وہاں کئی کئی دن قیام فرماتے اور اپنے ساتھ خورد و نوش کا سامان لے جاتے تھے۔ اگرچہ یہ سلسلہ سارے سال جاری رہتا لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بعثت سے قبل مسلسل پانچ سال تک رمضان المبارک کے پورے ماہ غار حرا میں قیام فرماتے رہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم وہاں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور و فکر فرماتے تھے:

 کائنات کیسے تخلیق ہوئی؟
آسمان،سورج ،چاند اور زمین کیا ھیں ؟
 کائنات اور انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟
 آدمی پیدا کیوں ہوتا ہے اور بالآخر مر کیوں جاتا ہے؟

ان امور پر غور و فکر اور ان کے اندر کارفرما اللہ تعالیٰ کے انوارات کا عرفان حاصل کرنا غار حرا کی سنت ہے کیونکہ اس وقت تک نماز و عبادت فرض نہیں ہوئی تھی۔ غار حرا جبل نور میں واقع ہے۔ یہ بڑی پر مسرت اور حیرت انگیز بات ہے کہ عربی میں حرا ریسرچ یا تحقیق کو کہتے ہیں جبکہ جبل نور کا مطلب روشنی کا پہاڑ ہے اور پہاڑ سے مراد لامحدود وسعت ہے۔ اس طرح جبل نور میں غار حرا تشریف لے جانے کا مطلب یہ ہوا کہ
o سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا میں لامحدود روشنی تلاش کرنے اور اللہ کی نشانیوں پر غور کرنے کیلئے جاتے تھے۔

جب پانچویں سال حضور پاکصلى الله عليه وسلم کی تحقیق و تلاش عروج پر پہنچ گئی اور رسول اللہصلى الله عليه وسلم کا ذہن مبارک نقطہ وحدانیت میں جذب ہو گیا یعنی جب رسول اللہصلى الله عليه وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ کے دیدار کے علاوہ کوئی تصور باقی نہیں رہا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آپصلى الله عليه وسلم کے پاس بھیج دیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا۔
اقراء!
 پڑھیئے
اقرا باسم ربک الذی خلق
 پڑھیئے رب کریم کے نام سے جس نے تخلیق کیا
خلق الانسان من علق
 اور تخلیق کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے
حضور پاکصلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور پاک صلى الله عليه وسلم کو اپنے سینے سے لگا کر بھینچا اور حضورصلى الله عليه وسلم کو سینہ مبارک میں گرمی اور حدت محسوس ہوئی۔

پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا
اقراء!
o پڑھیئے
حضور پاکصلى الله عليه وسلم نے دوسری مرتبہ فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دوسری مرتبہ آپصلى الله عليه وسلم کو اپنے سینے سے لگانے کے بعد کہا کہ
اقراء!
o پڑھیئے
حضور پاکصلى الله عليه وسلم نے پھر فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔
تیسری بار حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوری شدت کے ساتھ رسول اللہصلى الله عليه وسلم کو اپنے سینے کے ساتھ لگا کر بھینچا اور جذب کرنے کی کشش کی اور کہا
اقراء!
o پڑھیئے

غار حرا میں حضرت جبرائیلؑ ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی اور نبوت لے کر آئے اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، اللہ تعالیٰ کے کلام سے مستفیض ہوئے لیکن جب رسول اللہصلى الله عليه وسلم نے اللہ کی وحدانیت کی
دعوت دی تو اہل مکہ نے محدود شعور کی بناء پر توحید کو قبول نہیں کیا بلکہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اذیت و تکالیف پہنچائیں، آپصلى الله عليه وسلم کا بائیکاٹ کیا حتیٰ کہ حضور پاکصلى الله عليه وسلم کو
مکہ سے ہجرت کرنا پڑی۔

رسول اللہصلى الله عليه وسلم کی امت کی حیثیت سے امت مسلمہ پر لازم ہے کہ غور و فکر کی تعلیمات اور سنت پر عمل پیرا ہو کر شعوری ارتقاء اور ذہنی وسعت حاصل کرے۔ غار حرا کی سنت امت مسلمہ کیلئے اس بات کا پیغام ہے کہ باطن میں موجود انوارات اور روشنیوں کو تلاش کر کے
ان کے اندر تفکر کیا جائے۔

جس قوم سے تحقیق، تلاش اور ایجادات نکل جاتی ہیں وہ قوم تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ علم امت مسلمہ کا ورثہ ہے۔ مسلمان عمل سے دوری کے نتیجے میں تباہ و برباد ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں نے علمی طور پر شعوری ارتقاء حاصل کرنے کی بجائے تنزلی و تباہی اختیار
کی ہے۔ علم کی میراث حاصل کر کے عزت و آبرو سے زندگی بسر کرنے اور بحیثیت امت
عروج حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہصلى الله عليه وسلم سے ہمارا تعلق صرف زبانی و کلامی تو نہیں رہ گیا؟ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے محبت و عقیدت کا عملی
تقاضا ہے کہ ہم آپ صلى الله عليه وسلم کی غار حرا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم کی محبت اور غور و فکر کو اپنے عمل و کردار کا حصہ بنائیں۔


0 comments:

Post a Comment

Unordered List

Total Pageviews

Powered by Blogger.

Followers

Flag counter

Flag Counter