اسی طرح وہ دینی لوگ جو نفسی تجربات سے روشناس ہوتے ہیں. انہیں بھی شیطان ایک نئے ڈھب سے پھانستا ہے. وہ پہلے سامنے نیک اور سچا بن کر اپنے شکار کا بھروسہ جیتتا ہے اور پھر خود فریبی کی دلدل میں اسے دفن کردیتا ہے. یہ یاد رکھیں کہ اس غیبی دنیا میں بہت سے درجات ہیں اور اس میں داخلہ ہر مسلم، ہندو، سکھ عیسائی کر سکتا ہے مگر ہر ایک کی استعداد مختلف ہوتی ہے. میرا اپنا ایک عیسائی دوست جس کے سچ بولنے پر مجھے اطمینان ہے .. اسکے بقول وہ خدا کی آواز سنتا ہے اور مجھے بھی وہ میری اپنی ایسی ذاتی باتیں بتا چکا ہے جو اس کے علم میں نہیں ہو سکتی تھیں. اس نفسی عالم میں خیر اور شر یعنی ملائک اور شیاطین دونوں کام کر رہے ہیں. ہوتا کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ ایک شخص مختلف 'نفسی' وارداتوں سے گزرتا ہے جسے اکثر روحانی تجربہ کہہ دیا جاتا ہے. سچے خواب دیکھتا ہے یا عجیب واقعات سے گزرتا ہے جو اسے مدد کرتے ہیں. رفتہ رفتہ اس شخص کا اعتبار ان تجربات یا وارداتوں پر محکم ہوجاتا ہے. وہ شخص اب یہ ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ اپنے اس تجربہ کو قران و سنت کی کسوٹی پر پرکھ لے. بھروسہ جیتنے کے بعد یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں شیطان اپنی اصل کاروائی کرتا ہے. اب انہی خوابوں یا تجربات کے ذریعے وہ نہایت خوش نمائی سے اسے شرک، بدعت ، کفر کی جانب لیتا جاتا ہے. غلام احمد قادیانی ہو یا بہاالدین بہائی یہ سب شیطان کی اسی چال کا شکار ہوکر جھوٹی نبوت کے دعویدار بنے. کتنوں نے خدائی اور کتنوں نے امام مہدی ہونے کا دعوا کیا. ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ سالک اپنے ہر نفسی یا روحانی تجربہ کو چاہے وہ کتنا ہی واضح کیوں نہ ہو ، قران و سنت کی کسوٹی پر جانچے اور اگر وہ اس سے کسی درجے میں متصادم ہو تو ایسے تجربہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے.
میں نے کتنے ہی دینی رہنما ایسے دیکھے ہیں جو خود کو بہت اونچا زاہد و عابد سمجھتے ہیں، میں نے کتنے ہی ایسے روشن خیال مفکرین دیکھے ہیں جو قران حکیم پر اپنی علمیت کے حوالے سے مغرور ہیں، میں نے کتنے ہی ایسے پیر درویش دیکھے ہیں جو اپنی روحانیت پر نازاں ہیں. یاد رکھیں، شیطان کا سب سے مہلک وار .. احساس پارسائی ہے.
تحریر: عظیم الرحمٰن عثمانی
0 comments:
Post a Comment