Information and theories about Islam

Thursday, August 20, 2015

اپنے پیٹ میں دوزخ بھر کر ہم حلال حرام کا فرق کیوں نہیں سمجھتے



مسنر نعیم کی فیملی آج کے دور میں ہر لحاظ سے خوشحال مانی جاسکتی ہے نعیم صاحب اور ان کی نصف بہتر آمدن کے ہر جائز ناجائز ذرائع کو بسمہ اللہ کرکے اختیار کرتے ہیں تبھی کمر توڑ مہنگائی میں بھی پر آسائش زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہیں
اس دن میں مسنر نعیم کی ناسازی طبعیت کا سن کر ان کی عیادت کرنے چلی گئی وہ بڑی بااخلاق خاتون ہیں پلنگ پر دراز لیب ٹاپ ٹانگوں پر رکھے کسی سے مہو گفتگو تھیں میں سمجھ گئی ان کا سب سے لاڈلا چھوٹا بیٹا جو پڑھائ کی غرض سے حال ہی میں آسٹریلیا گیا تھا اسی سے بات چیت ہورہی ہوگی وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوئیں علیک سلیک کے بعد مجھے بھی کہا بھائی سے اسکائپ پر سلام کرلو میں نے دیکھا باہر کی آب وہوا نے اس بچے پر اچھا اثر چھوڑا تھا فکر معاش کے لئے تو گیا نہیں تھا اس لئے بے فکر تھا مسنر نعیم نے لیب ٹاپ بند کرکے برابر میں رکھا اور بڑے ہی فکر مند انداز میں گویا ہوئیں
'میرا بچہ باہر جاکر بڑا ہی پریشان ہوگیا ہے وہاں تو حلال حرام کی کوئی تمیز ہی نہیں ہے کھانے میں اسلئے بچارا ڈر ڈر کر مارکیٹ سے کچھ خریدتا ہے کہ کہیں کسی چیز میں پورک شامل نہ ہو یا کتے بلے کا گوشت وغیرہ نہ پیٹ میں چلا جائے آخر مسلمان کا بچہ ہے جو چیز اللہ نے حرام کی ہے وہ کیسے منہ میں ڈالے'
میں ان کے یہ الفاظ سن کر حیرت سے ان کا منہ تکنے لگی کہ جب اپنے وطن میں دوسروں کا حق مار کر ناجائز کمائ سے حاصل کئے گئے لقموں سے یہی لڑکا اپنا پیٹ بھر رہا تھا تب اس کو اللہ کے حرام حلال کے قانون پر عمل درآمد کرنے کا خیال کیوں نہ آیا
ہم صرف پورک کتا بلی یا دوسرے حرام جانوروں کے گوشت کھانے میں احتیاط کرکے خود کو ایک باعمل مسلمان سمجھ لیتے ہیں جبکہ دوسری طرف مظلوم یتیم کا مال کھا کر ناجائز ذرائع سے حرام کمائ حاصل کرکے اپنے پیٹ میں دوزخ بھر کر ہم حلال حرام کا فرق کیوں نہیں سمجھتے؟
تحریر فرح بھٹو
'

0 comments:

Post a Comment

Unordered List

Total Pageviews

Powered by Blogger.

Followers

Flag counter

Flag Counter