Information and theories about Islam

Friday, August 21, 2015

عرب کے بدو ایک بوڑھی عورت سے شرمناک شکست کھا گئے فاتح بننے کا طریقہ



یہ 1973ء کی بات ھے۔ عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایسے میں ایک امریکی سینیٹر کسی اہم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا، اُسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم "گولڈ مائیر" کے پاس لے جایا گیا۔

گولڈ مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سینیٹر کا استقبال کیا اور اُسے اپنے کچن میں لے گئی، یہاں اُس نے امریکی سینیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائینگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر، چولہے پر چائے کیلئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آ بیٹھی۔ سینیٹر کے ساتھ اُس نے توپوں، طیاروں اور میزائلوں کا سودا شروع کر دیا۔ ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اُسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اُٹھی اور دو پیالیوں میں چائے اُنڈیلی، ایک پیالی سینیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی، پھر خود دوبارہ کرسی پر آ بیٹھی اور امریکی سینیٹر سے محو کلام ہو گئی۔
چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈ مائیر اُٹھی، پیالیاں سمیٹیں اور اُنہیں دھو کر واپس سینیٹر کی طرف پلٹی اور بولی، "مجھے یہ سودا منظور ھے، آپ تحریری معائدے کیلئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے.."

یاد رھے کہ اسرائیل اُس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا مگر گولڈ مائیر نے کتنی "سادگی" سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا۔ کابینہ کا مؤقف تھا کہ، "اِس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کے کھانے پر اکتفاء کرنا پڑے گا۔۔!"

گولڈ مائیر نے کابینہ کے ارکان کا مؤقف سُنا اور کہا، "آپ کا خدشہ درست ہے لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ھم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دے گی۔ اور تاریخ جب کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ھے تو بھول جاتی ھے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا، اُس کے دسترخوان پر شہد، مکھن اور جیم تھا یا نہیں؟، اور اُن کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یا اُن کی تلواروں کی نیام پھٹی پرانی تھیں یا نئی، فاتح صرف فاتح ھوتا ھے۔۔۔!!"

گولڈ مائیر کی دلیل میں وزن تھا لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اِس سودے کی منظوری دینا پڑی۔ آنیوالے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈ مائیر کا اِقدام درست تھا اور پھر دنیا نے دیکھا، اُسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی، عربوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔ جنگ ہوئی اور عرب کے بدو ایک بوڑھی عورت سے شرمناک شکست کھا گئے۔

یہ بھی ایک عجیب حقیقت ھے کہ امت مسلمہ کو بیسویں صدی میں ٹکڑوں میں تقسیم کر دینے میں دو عورتوں کا ہاتھ رہا ہے یعنی عربوں کو تقسیم کرنے میں گولڈ مائیر کا اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں اندرا گاندھی کا۔۔!

جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈ مائیر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا، "امریکی اسلحہ خریدنے کیلئے آپ کے ذھن میں جو خیال آیا تھا، وہ آپ کے اپنے ذہن کی اختراع تھی یا اسرائیلی گورنمنٹ کی پہلے سے طے شدہ حکمت عملی تھی۔۔۔؟"
گولڈ مائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا، وہ بولی۔۔۔!

"میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے لیا تھا۔ میں جب طالبہ تھی تو مذاھب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا، اُنہی دنوں میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سوانح حیات پڑھی۔ اُس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا وصال ھوا تو اُن کے گھر میں اِتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کیلئے تیل خریدا جا سکے۔ لہٰذا اُن کی اھلیہ عائشہ (صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے اُن کی زرہ بکتر رھن رکھ کر تیل خریدا لیکن اُس وقت بھی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رھی تھیں۔۔!

میں نے جب واقعہ پڑھا تو میں سوچ میں پڑ گئی کہ اُس وقت دنیا میں کتنے لوگ ھونگے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ھونگے۔۔؟، لیکن یہ بات پوری دنیا جانتی ھے کہ بعد میں مسلمان آدھی دنیا کے فاتح قرار پائے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے، تو بھی اسلحہ خریدیں گے، خود کو مضبوط ثابت کرینگے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔۔۔!"
گولڈ مائیر نے اِس حقیقت سے تو پردہ اُٹھایا مگر ساتھ ھی انٹرویو نامہ نگار سے درخواست کی کہ "اِس انٹرویو کو " آف دی ریکارڈ " رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔۔!" وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ھے، وہاں دنیا کے مسلمانوں کے مؤقف (اسلام) کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔

پھر وقت آہستہ آہستہ گزرتا رہا، یہاں تک کہ گولڈ مائیر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو نامہ نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہو گیا۔ اس دوران ایک اور نامہ نگار، امریکہ کے چند بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا، اُس سلسلے میں ایک دِن وہ اُسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈ مائیر کا انٹرویو لیا تھا۔
اُس انٹرویو میں اُس نے گولڈ مائیر کا واقعہ بھی بیان کر دیا جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق تھا۔ اُس نے کہا، "اُسے اب یہ واقعہ بیان کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی ہے۔۔۔!"

گولڈ مائیر کا انٹرویو لینے والے نے مزید کہا، "میں نے اِس واقعہ کے بعد جب تاریخِ اسلام کا مطالعہ کیا تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا اُس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاھدوں کے پاس پورا لباس بھی نہیں تھا۔ وہ بہتَر بہتَر (72) گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب گولڈ مائیر کا انٹرویو کرنے والا نامہ نگار بھی قائل ھو گیا کہ، "تاریخ فتوحات گنتی ھے، دستر خوان پر پڑے انڈے، جیم اور مکھن نہیں۔۔۔!!

0 comments:

Post a Comment

Unordered List

Total Pageviews

Powered by Blogger.

Followers

Flag counter

Flag Counter